اسکی آواز رندھی ہوئی تھی
اسکی آواز رندھی ہوئی تھی۔ میں نے بغور اسے دیکھا۔ سترہ اٹھارہ سال عمر رہی ہوگی۔ خود کشی کی ناکام کوشش کے تیسرے دن وہ میرے ساتھ موجود تھا .وقت پر اسپتال پہنچا دیے جانے کے سبب اس کا رشتہ زندگی سے بر قرار تھا۔
“معاشرہ محبت کو تسلیم کرتا ہے میرے دوست۔ بس اگر تم کچھ باتوں کو سمجھ لو اور تسلیم کرلو۔”
میری بات سن کر اسنے حیران نظروں سے مجھے دیکھا۔ “وہ کیا؟”
اسکی معصومیت پر بے اختیار میں مسکرادیا۔ “ٹھیک ہے میں تمہیں سمجھاتا ہوں۔ لڑکی کا نام کیا ہے؟”
“ارم” اس نے آہستہ سے کہا۔
“اوکے۔ اب تم مجھے لڑکی کا باپ سمجھو۔ میں ہوں ارم کا والد اور تم دانش صاحب میری بیٹی کے رشتے کے خواہش مند ہو۔ اب میں تم سے کچھ سوالات پوچھوں گا۔ تم پوری ایمانداری سے جواب دینا۔ تمھاری تعلیم کتنی ہے؟”
“انٹر”
“کیا تعلیمی سلسلہ یہیں تک رکھنا ہے یا آگے بھی پڑھنا ہے؟ مطلب زندگی میں کوئی مقام حاصل کرنے کیلیے اچھی جاب پانے کیلیے اتنا کافی ہے؟”
“نہیں”
“تم کام کیا کرتے ہو؟”
“فی الحال کچھ نہیں”
“اب تک خود بھی کچھ کمایا ہے یا والدین کے دے ہوئے جیب خرچ پر گزارا ہے؟”
“جی ابھی تک تو کچھ نہیں کمایا لیکن مستقبل میں ضرور کام کرکے کمانے کا ارادہ ہے۔”
“میری بیٹی سے کتنا پیار کرتے ہو۔ کیا اسے خوش رکھ پاؤ گے؟”
“جی ہاں میں اسے بہت زیادہ پیار کرتا ہوں۔ اتنا زیادہ کہ جب آپ نے رشتے سے انکار کیا تو میں نے زہر پی لیا۔ بے شک میں اسے خوش رکھ پاونگا ۔”
میں نے سترہ سالہ دانش کی طرف تیز نظروں سے دیکھ کر سخت لہجے میں کہا۔ “اس محبت کا کیا جو تمھارے والدین تم سے کرتے ہیں۔ تم نے دو دن کی محبت کے لیے انہیں زندگی بھر کے عذاب میں مبتلا کردینا تھا۔ کتنے لاڈ پیار محبت سے تمہیں پالا پوسا، اس دن کیلیے کہ جب انہیں بڑھاپے میں تمھارے سہارے کی ضرورت ہو تم انہیں آخری وقت تک کیلیے نا قابل بیان اذیت میں مبتلا کردو؟ جسے اپنے والدین کی بے لوث محبت کا خیال نہیں، میں کیسے یقین کرلوں وہ میری بیٹی کا خیال رکھے گا؟ جسے اپنی تعلیم مکمل کرکے زندگی میں بہتر مقام پانے کا احساس نہ ہو، وہ کیسے ایک ذمہ دار آدمی ہوسکتا ہے؟ جس آدمی نے اب تک اپنے ہاتوں کچھ کمایا ہی نہ ہو وہ کیسے گھر گھرستی کا نظام چلا پایگا۔
سنو! سب سے پہلے خود کو ایک ذمہ دار انسان ثابت کرو۔ والدین بہن بھائیوں کی محبت کا احساس کرنے والا، زندگی کی قدر سمجھنے والا۔ اپنی تعلیم مکمل کر کے زندگی میں اپنا مقام بناؤ۔ معاشی طور پر خود کو مظبوط کرو۔ اسکے بعد آؤ شادی کے مقدس رشتے کی طرف۔ کوئی تمہیں انکار نہیں کریگا۔ اور اگر کوئی انکار کربھی دے تو تم سمجھو گے کہ زندگی جیسی انمول نعمت کسی ایک کے حرف انکار سے ختم کرنے لائق ہرگز نہیں۔
محبت کو معاشرہ تسلیم کرتا ہے میرے دوست۔ بس پہلے تم خود کو محبت کے قابل تو بنا لو۔”
إرسال تعليق